تحریر: سید قمر عباس قنبر نقوی، نئی دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت نبیؐ رحمت، مرسلِ اعظم ، خاتم النبینؐ، سرکارِ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اہلبیتِ اطہار علیہم السلام کی محبت سے شرسار دو علمی و ادبی خانوادوں کے قابلِ فخر و اعتماد نمائندے سید سلیم حیدر نقوی کا ددھیال تہزیبی اقدار کا نگہبان ، شعر و نثر کا معتبر ستون ، علم دوست اور عظمتِ حضرات رسولؐ و آلِؑ رسولؐ کا محافظ شہرِ امروہہ ہے۔ یہ وہی امروہہ ہے جس کی شناخت سید العارفین حضرت سید حسین شرف الدین شاہ ولایت کی کرامات سے ہے اور ادبی طور پر میرسعادت علی، غلام ہمدانی مصحفی، نسیم، شمیم، صادقین، رئیس، جون ایلیا، کمال، ڈاکٹر عظیم نقوی ، ڈاکٹر ہلال نقوی ، پروفیسر ناشر نقوی کی زمین ہے۔ آج اس شہرِ شعر و ادب کے ایک بڑے ادبی زمیندار سلیم امروہوی ہیں ۔
خلوص و محبت کی دولتِ عظمیٰ سے مالا مال سلیم امروہوی کا ننھیال سرسی محمود پور ضلع سنبھل ہے۔ جو باکرامت بزرگ سید جمال الدین بمعروف مخدوم صاحب اور سید زید علیہ رحمہ کا آباد کردہ وہ تاریخ ساز قصبہ ہے جو اپنے وجود کے ابتدائی ایام سے آج تک دین و مذہب اور علم و ادب کا انتہائی مضبوط کی قلعہ ہے ۔ یہاں ہر دور میں غیور و حساس اور شوقِ شہرت و پرچار سے دور علماء ، ادبا ، خطباء ، شعراء ، صحافاء ، اطباء ، مفکر ین و مدبرین اور دستور و قوائد اور عدلیہ کے محافظین پیدا ہوتے رہیں ہیں۔ اس دینی، علمی، ادبی ماحول اور زمیندارنہ فضا میں نواب سید
یوسف علی جعفری "خاں " کی دختر ، ماہرِ اُمورِ تعلیم اور اتحاد و رواداری کے آئیڈیل نواب سید انتقام علی خاں کی ہمشیرہ اور سلیم امروہوی کی والدہ معظمہ نواب زادی حُسن آرا بیگم ( المعروف بالی باجی) نے آنکھ کھولی حُسن آرا بیگم وہ منتخب خاتون تھیں جن کو پرور دگارِ عالم نے وہ بلند مقدر اور مقدس آغوش عطا کی تھی جسمیں ایک نہیں دو دو ایسے عظیم و سلیم شاعرِ حضرات معصومینؐ پروان چڑھے جنھوں نے حضراتِ ائمہ معصومینؐ کی پسندیدہ شاعری کو بھر پور عروج بخشا ہے۔ ہم سرسی سادات والوں کی بالی باجی اور ذاکرہ حضرتِ سید شہداءؑ کو یہ شرف بھی حاصل رہا کہ سرسی میں اپنے مکان کے دونوں حصوں ( مردانہ مکان اور زنانہ مکان ) میں عشرہ مجالسِِ اربعین کے موقع پر زندگی کے آخری لمحات تک پورے احترام و عقیدت سے فرشِ عزا بچھاتیں رہیں ۔ پرور دگار کا کرم ہے کہ عشرہ مجالس کا سلسلہ آج بھی اُسی شان و شوکت اور احترام و اہتمام سے جاری ہے۔
ربِ کریم نے بالی باجی کو یہ شرف بھی بخشا کہ آپ کی کُل اولاد ماشاء اللہ حج و زیارات سے مشرف ہے اور پرور دگار انھیں یہ سعادت بار بار بخشتا ہے۔ مرحومہ بالی باجی کے لائق بیٹوں خصوصاً ڈاکٹر عظیم امروہوی، حیدر کمال نقوی اور سلیم امروہوی نے آپ کے نام پر ایک دینی،ادبی اور ثقافتی ٹرسٹ " عالمی حُسن آرا ٹرسٹ " قائم کیا ہے جس کے زیرِ اہتمام پورے سال انہی عنوانات کے تحت تقریبات جاری رہتیں ہیں۔
ایسا حٙسین و خوبصورت ددھیال و ننھیال رکھنے والے گویا نجیب الطرافین ادبیات کے نمائندہ شاعر سید سلیم حیدر نقوی سلیم امروہوی 30 جون 1973 کو امروہہ کی ایک دیندار اور ذوقِ ادب رکھنے والی شخصیت سید نور الحسن نقوی ابن الحاج سید معجزحسین نقوی راقم امروہوی کے گھر پیدا ہوئے۔
سلیم امروہوی نے اپنے شعری سفر کا باقاعدہ آغاز مُلک کی مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہوسٹل میں رہ کر کیا جہاں وہ شعبئہ انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ ان کی خوش نصیبی رہی کہ انھیں ابتدا سے ہی دنیائے اردو ادب کے معتبر و مستند شاعر ، محقق، مورخ، ادیب ،دانشور ، مرثیہ نگار، عالمی ناظم اور 50 سے زائد کتابوں اور سینکڑوں رسائلی مضامین ومقدمات کے خالق ڈاکٹر عظیم امروہوی کی رہنمائی حاصل رہی اور یہ رہنمائی فیض ہے اُس مقدس رشتہ کا جس کے لیے مولائے متقیانؑ نے نماز شب میں دعائیں کیں اور دخترِ پیغمبر اکرمؐ شہزادی کونیںؑ نے وصیتیں فرمائیں تھیں یعنی خونی اعتبار سے ڈاکٹر عظیم امروہوی اور سلیم امروہوی کا وہی رشتہ ہے جو حضرتِ سید الشہدا امام حسینؑ اور تاج دارِ وفا حضرتِ ابوالفضل العباسؑ کے مابین تھا - سلیم امروہوی نے شاعری کی راہ میں انتہائی محنت ، دیانتداری ، لگن اور دلچسپی کے باعث بہت جلد شعری اصول و آداب اور شعری شعور پر اس حد تک دسترس حاصل کرلی کہ برادرِ عالی، استادِ محترم اور عالمی مرثیہ سینٹر نئی دہلی کے چیرمین ڈاکٹر عظیم امروہوی بھی مطمئن نظر آتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ " خدا کا شُکر ہے آج بھی ہماری نئی نسل علم و ادب سے جُڑی ہوئی ہے اور نوجوان نسل کا شرف برادرِ خورد سلیم امروہوی سلمہ کو حاصل ہے"
علم و فن اور شعر و ادب کے متعدد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور مراکز سے اعزاز یافتہ سلیم امروہوی نے یوں تو تقریباً تمام شعری اصناف مثلاً حمد، نعت ، منقبت، قصید، مرثیہ منقبت ،قصیدہ ،مرثیہ، غزل، نظم ، قطعہ، رباعی، ترانہ پر طبع آزمائی کی ، لیکن صنفِ نعتِ رسول اکرمؐ سے انھیں عالمی سطح پر زبردست شُہرت و ہمت افزائی نصیب ہوئی ہے ۔ اس مضمون میں سلیم امروہوی کی نعتیہ شاعری کے بعض پہلووں اور اُن کی فکر و عقیدے کو پیش کرنا مقصود ہے ۔ فنِ شاعری پر بات کرنا ہم جیسے طلاب کا نہیں اساتذہ ادب کا حق ہے- سلیم امروہوی کی شاعری ہمارے لیے یوں بھی معتبر اور قابلِ قدر ہے کہ علی گڑ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیمِ ( ایم۔ اے - اردو ) ہمارے استاد پروفیسر منظر عباس نقوی صاحب جیسے انتہائی محتاط نقاد نے سلیم امروہوی کی شاعری کو ان الفاظ میں سندِ اطمینان سے نوازا ہے کہ " سلیم صاحب کا تخلیقی سفر بڑی سلاست روی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ وہ جیسا آچھا کہتے ہیں ویسے ہی پُر تاثیر ترنم میں اُسے پیش کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں ۔ ان شاء اللہ وہ بہت جلد مدحیہ اور رثائی شاعری میں بھی بہت جلد ایک امتیازی مقام حاصل کر لیں گے" عہد حاضر کے معتبر ممتاز نعت گو شاعر سیلم امروہوی نے دیگر اصناف کی طرح نعتیہ میدان میں بھی روایتی شاعری نہیں کی وہ صرف حضرتِ رسولِ رحمتؐ کے جسمِ اطہر ، لباس اور وطنِ مدینہ کے حوالے سے شاعری نیں کرتے بلکہ حضوراکرمؐ کے پاکیزہ و طیبب کردار، اخلاق کی بلندی، پیغامِ رسولؑ، مقصدِ رسولؐ ، علمِ رسولؐ ، وارثِ رسولؐ اور عظمتِ رسولؐ جیسے موضوعات پر اپنے مضبوط فن، صالح فکر اور قدرت زبان کے جوہر دیکھاتے ہیں۔ نعت اور منقبت کے چند اشعارپیش ہیں۔
جب سُنا کرنا سیرتِ احمدؐ
تھوڑا اپنا محاسبہ کرنا
ذہن میں جب کوئی فطور نہ ہو
تب محمدؐ کا تزکرہ کرنا
ہیں محمدؐ کے ساتھ ساتھ علیؑ
اِن میں ہر گز نہ فاصلہ کرنا
اگر سر پہ کوڑا بھی ڈالے کوئی
وہ اک روز بیمار ہو گر کبھی
کرے جاکے خود اس کی چارہ گری
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی بنی
کردارِ مصطفیٰؐ کا کرو ذکر نعت میں
اشعار ہوں سلیم کسی بھی زبان میں
خدا مزید رحمت نازل فرمائے اُن بزرگوں اور اساتذہ پر جن کی خوبصورت تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں سلیم امروہوی کے قلم و فکر کو رسالت کی اتنی سچی معرفت عطا ہوئی کہ ہر ہر شعر اُس کی گواہی دے رہا ہے۔ فرماتے ہیں؛
کردار سے جیتا ہے دنیا کو محمدؐ نے۔
حالانکہ محمدؐ کے قبضے میں خدائی ہے۔
پیغام رسالت ہے ہمدرد بنو سب کے
اس میں ہی ترقی ہے اس میں ہی بھلائی ہے۔
سلیم امروہوی نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے محبوب نبیؐ کے ہر پیغام کو محبوب جانا ہے- سرکارؐ کا ارشاد گرامی ہے ۔" حبّ الوطن من الایمان " سلیم امروہوی مرسلِ اعظمؐ کے اس پیغام عام کرنے کے لیے فرماتے ہیں ۔
مادرِ وطن تجھ کو ہم سلام کرتے ہیں
اپنی جان، اپنا دل ترے نام کرتے ہیں
تیری سُرمائی شامیں چمپائی سویرے ہیں۔
امن کے گھروندو میں چین کے بسیرے ہیں
تو ہماری اپنی یے ہم بھی صرف تیرے ہیں
اس لیے بسر تجھ میں صبح شام کرتے ہیں۔
ذکر کو محمدؐ کے کون روک سکتا ہے
ہے نماز میں شامل تزکرہ محمدؐ کا
جس نے دیں تیرا بچایا ہے بھرا گھر دے کر
وہ کوئی اور نہیں تھا وہ نواسہ تیرا
کردار اپنا ایسا بنا لیجئے سلیم
دنیا کہے یہ چاہنے والا نبیؐ کا ہے
سلیم امروہوی کی شاعری پر نعتِ رسولؓ اکرم اور فکر میں قربت خاتم النبینؑ کا رنگ اسقدر غالب ہے کہ وہ کسی بھی صنفِ ادب یا موضوع پر لکھیں یہ رجحان خوب چھلکتا ہے۔
حضرت امام خمینی رح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
جو کر گئے ہیں عام پیامِ رسولؐ وہ
پیغمبرِؐ خدا کے پیمبر تھے خمینی
مظلوم کے تو مونس و یاور تھے خمینی
ظالم کے دِل میں جن سے تھا اک ڈر تھے خمینی
رُشدی بھی جن کے خوف سے محلوں میں جا چھپا وہ حق پرست ضیغم و داور تھے خمینی
ہندوستان کے متعدد شہروں اور یونیورسٹیز کےساتھ ساتھ سعودی عرب، ایران، عمان، عراق، اور قطر، دوبئ، ابو ظہبی میں اپنی شاعری کے خوبصورت اثرات قائم کرنے والے سلیم امروہوی کی شاعری کا اصل محور منشاء پروردگار، اطاعتِ پروردگار، حضراتِ محمدؐ و آلِؑ محمدؐ کے پیغاماتِ، تعلیماتِ کربلا، بزرگانِ دین و ملّت کی خدمات اور دیگر اخلاقی موضوعات مثلاً علم، امن، چراغ، نجات، عزم و عمل، محبت، بیداری، آئینہ اور حُب الوطنی رہا ہے- سلیم امروہوی کی یہ تعمیری فکر اور اصلاحی موضوعات صرف شاعری تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ اُن کی عملی زندگی میں بھی واضع طور پر دیکھائی دیتا ہے- سلیم امروہوی کی پوری شاعری خود گواہ ہے کہ انھوں نے کسی بھی صنفِ سُخن حتیٰ کہ ترانہ و غزل میں بھی اپنی فکر اور موضوع کو کبھی پسِ پُشت نہیں ڈا لا ہے ۔
غزل و ترانہ کے عنوان سے چند اشعار پیش ہیں۔
وہ مجھ میں یوں سماتا جارہا ہے
کہ مجھ کو ہوش آتا جا رہا ہے
میں جتنا صبر کرتا جا رہا ہوں
وہ اتنا آزماتا جا رہا ہے
یک بیک مہربانیاں کیسی
کیا انھیں اب میری ضرورت ہے۔
لاکھ کڑوا ہو پر حقیقت ہے
سچ بہرحال خوبصورت ہے
جب سے گھر کو بانٹا ہے
دونوں طرف سنناٹا ہے
سلیم ہمیشہ اصلاح ، تعمیر اور کام کی بات کرتے ہیں وقت گزاری اُن کے یہاں کہیں نہیں ملتی ۔ فرماتے ہیں۔
سلیم شاعری کرتا نہیں ہے بے مقصد
ہر ایک شعر میں مقصد ضرور ہوتا ہے
سلیم امروہوی کا ماننا ہے کہ پرور گار نے ہمیں شاعری کے فن سے نواز کر ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ کیا ہے۔ جس میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم خدا اور نمائندگانِ خدا کے پیغامات کو بندگانِ خدا تک پہنچائیں۔ شاید اسی جذبہ اور فکر کے تحت سلیم امرویوی انتہائی عام فہم اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ قاری اور سامع کے دلِ تک بات پہنج جائے۔ فرماتے ہیں ۔
سلیم اشعار مت کہہ دینا ایسے
کہ جن کو ہو لغت پڑھ کر سمجھنا
ملک و بیرون ملک کے متعدد ادبی و ثقافتی چینلز، مذہبی و ادبی بزم و نشست اور مسالموں و مشاعروں میں سُنے اور جرائد و رسائل میں پڑھے جانے والے سلیم امروہوی چار شعری مجموعوں " گہوارہِ خوشبو" ،سرمایہ نجات"، "ذکر مصطفیٰ" اور" کا ئنات " (زیر طبات) کے خالق ہیں ان شعری مجموعوں کو علمی و ادبی حلقوں میں جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ ربِ کریم کی خصوصی عنایت اور سلیم امروہوی باعمل و بامعرفت والدین کی دعائوں اور خود اُن کی (سلیم امروہوی) مضبوط نیت، پختہ عقیدے، یقین و استقامت کی بلندگی اور محنت و لگن کا نتیجہ ہے۔
ان شعری مجموں کی حمایت و تائید میں ڈاکٹر سید تقی عابدی، پروفیسر شارب ردولوی، احمد فراز، کیف بھوپالی، پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی، پروفیسر منظر عباس نقوی، پروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر تابش مہدی، ،سید شریف الحسن نقوی، ڈاکٹر عظیم امروہوی، پروفیسر وسیم بریلوی ، پروفیسر ناشر نقوی، ڈاکٹر سید رضا حیدر ، فاروق ارگلی، انجم عثمانی، پروفیسر عباس رضا نیر، سراج نقوی اور سید مرغوب حیدر عابدی جیسے معتبر و ممتاز اساتذہ ادب، نقاد و محقیقین، شعراء و ادباء نے مقدمے اور تاثرات تحریر کیے ہیں جنکا ایک جملہ بھی تعلیمی اداروں کی اسناد سے وزنی ہے۔ سلیم امروہوی کے یہ شعری مجموعے اور اُن کی غیر طبع شاعری ادبی ذخیرے میں قابلِ قدر اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھیں اہل علم قدر کی نگاہوں سے دیکھتے رہیں گے۔ بارگاہِ رب کریم میں دعا ِہے کہ بحقِ حضرات معصومینؑ علیہم السلام سید سلیم حیدر نقوی سلیم امروہوی کے فکر و قلم میں مزید قوت عطا فرما، خدمتِ دین اور محافظین دین، علم و ادب نیز ملک و ملت کی خدمت کا یہ جزبہ ان کی نسلوں میں برقرار رکھ، انھیں بمعہ متعلقین صحت و سلامتی عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔